اداسی نظم اُداسیوں کا سبب جو لِکھنا، تو یہ بھی لِکھنا...!! کہ چاند تارے، شہاب آنکھیں...!! بدل گئے ہیں...!! وہ زِندہ لمہے جو تیری...!! راہوں میں تیرے آنے کے مُنتظر تھے...!! وہ تھک کے سایوں میں ڈھل گئے ہیں...!! وہ تیری یادیں، خیال تیرے...!! وہ رنج تیرے، وہ ملال تیرے...!! وہ تیری آنکھیں، سوال تیرے...!! وہ تُم سے میرے تمام رشتے...!! بِچھڑ گئے ہیں، اُجڑ گئے ہیں...!! اُداسیوں کے سبب جو لِکھنا، تو یہ بھی لِکھنا...!! لرزتے ہونٹوں پہ لڑکھڑاتی...!! دُعا کے سُورج پِگھل گئے ہیں...!! تمام سَپنے ہی جل گئے ہیں...
محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا ہنسی آتی ہے اپنی بربادیوں پر نہ یوں پیار سے دیکھیۓ بندہ پرور مِرے دل کے زخموں کو نیند آ گئی ہے انہیں تم جگانے کی کوشش نہ کرنا محبت تو ہے ایک کاغذ کی ناؤ، اُدھر بہتی ہے جس طرف ہو بہاؤ نظر کے بھنور میں نہ تم ڈوب جاؤ، نگاہیں ملانے کی کوشش نہ کرنا ٹھہر جاؤ آنکھوں میں تھوڑا سا دم ہے، تمہیں دیکھ لیں ورنہ حسرت رہے گی بناتے رہے ہو ہمیں زندگی بھر، مگر اب بنانے کی کوشش نہ کرنا ستمگر سے جور و ستم کی شکایت، نہ ہم کر سکے ہیں نہ ہم کر سکیں گے مرے آنسوؤ! تم مِرا ساتھ دینا، انہیں تم بتانے کی کوشش نہ کرنا شمع بن کے محفل میں ہم جل رہے ہیں، مگر دل کی حالت ہے پروانوں جیسی خدا کی قسم جان دے دیں گے تم پر، ہمیں آزمانے کی کوشش نہ کرنا مسرور انور