نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

غزل لیبل والی پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

میں لوگوں سے ملاااتوں کے لمحے یاد رکھتا ہوں

 میں لوگوں سے مُلاقاتوں کے لمحے یاد رکھتا ہوں  میں باتیں بھول بھی جاؤں تو لہجے یاد رکھتا ہوں  سرِ محفل نِگاہیں مجھ پہ جِن لوگوں کی پڑتی ہیں  نِگاہوں کے معنی سے وہ چہرے یاد رکھتا ہوں  ذرا سا ہٹ کے چلتا ہوں زمانے کی روایت سے  کہ جِن پہ بوجھ میں ڈالوں وہ کاندھے یاد رکھتا ہوں  میں یوں تو بُھول جاتا ہوں خراشیں تلخ باتوں کی مگر جو زخم گہرے دیں وہ رویّے یاد رکھتا ہوں

جھوٹ چہرے پہ سجانا نہیں آیا مجھ کو زندگی تجھ کو بِتانا نہیں آیا مجھ کو

  جھوٹ چہرے پہ سجانا نہیں آیا مجھ کو زندگی تجھ کو بِتانا نہیں آیا مجھ کو رہ کے دنیا میں بھی سیکھی نہیں دنیا داری کر کے احسان جتانا نہیں آیا مجھ کو دنیا ٹھیٹر ہے تو ناکام اداکار ہوں میں کوئی کردار نبھانا نہیں آیا مجھ کو ایک ہی شخص کی خواہش میں رہا سرگرداں در بدر خاک اڑانا نہیں آیا مجھ کو لطف تو جب تھا وہ خود کرتا محبت محسوس کہہ کر احساس دلانا نہیں آیا مجھ کو کچھ تو یہ دل بھی ہے تنہائی پسند اور اس پر عمر بھر دوست بنانا نہیں آیا مجھ کو تُو سمجھتا ہے کہ میں ترکِ تعلق پہ ہوں خوش روٹھنے والے منانا نہیں آیا مجھ کو
  غزل   ترے فراق میں گھٹنوں چلی ہے تنہائی خیال و خواب میں پھولی پھلی ہے تنہائی ترے خیال ترے ہجر کے وسیلے سے تصورات میں ہم سے ملی ہے تنہائی جمال یار میں کھویا ہوا ہے سناٹا خیال یار میں ڈوبی ہوئی ہے تنہائی کسی کے شوخ بدن کی ضرورتوں کی طرح تمام رات سلگتی رہی ہے تنہائی تمہاری زلف معنبر کا آسرا لے کر ہماری فکر و نظر میں پلی ہے تنہائی نامعلوم

مجھے پیار کا میٹھا احساس دلانے لگے ہو تم اب مجھ سے مجھ ہی کو چرانے لگے ہو تم

  غزل مُجھے پیار کا میٹھا احساس دِلانے لگے ہو تم اب تو مجھ سے مُجھ ہی کو چرانے لگے ہو تم تیری چاہتوں کا چھایا ہے سرور ہم پر ہر طرف ہر پل ہر جگہ نظر آنے لگے ہو تم  ہماری ویران تھی زندگی تیرے آنے سے پہلے خوشیوں کے خواب مجھے دِکھانے لگے ہو تم  اب ہر پل مُجھے ہوتا ہے تیرے ہونے کا احساس اس قدر میری سانسوں میں سمانے لگے ہو تم  کہاں تُجھے اس بات کا احساس ہے میرے ہمدم میرے ہر شعر میں ہر غزل میں آنے لگے ہو تم۔ نامعلوم

ہم تو مقتل میں بھی آتے ہیں بصد شوق و نیاز جیسے آتا ہے محبت سے پکارا ہوا شخص

غزل  ہم تو مقتل میں بھی آتے ہیں بصد شوق و نیاز جیسے آتا ہے محبت سے پکارا ہوا شخص کب کسی قرب کی جنت کا تمنائی ہے یہ ترے ہجر کے دوزخ سے گزارا ہوا شخص اب اندھیرے ہیں کہ لیتے ہیں بلائیں اُس کی روشنی بانٹ گیا دیپ پہ وارا ہوا شخص موت کے جبر میں ڈھونڈی ہیں پناہیں اس نے زندگی یہ ہے ترے لطف کا مارا ہوا شخص نامعلوم

زندگی ڈال گئی وقت کی رفتار پہ خاک تازہ غزل

  تازہ غزل  زندگی ڈال گئی وقت کی رفتار پہ خاک  جم گئی زیست کے خستہ در و دیوار پہ خاک  فیصلہ تُو نے سنایا ہے بڑی دیر کے ساتھ  منصفِ وقت ترے جیسے طرفدار پہ خاک  فاختاؤں کو جہاں نوچ کے کھا جائے ہوس   پھر تو بنتا ہے کہ ڈال آؤ وہاں پیار پہ خاک  جب محبت ہی نہیں مجھ کو ترے ساتھ رہی زندگی بھاڑ میں جا اب ترے اقرار پہ خاک   کس طرح اب تُو مرے پاؤں پکڑتا ہے یہاں  کیسے ڈالوں میں ترے جیسے شرمسار پہ خاک  اُن فقیروں کو بھلا کیسے خریدے گا کوئی ڈال آئے ہوں جو خود خلعت و دستار پہ خاک  تیری دنیا سے خدا مجھ کو کوئی کام نہیں  میری جانب سے ترے رونقِ بازار پہ خاک  جھوٹ کی جیت ہو سچائی مرے روز جہاں  ایسے ہر عہد کے ہر صاحبِ کردار پہ خاک  بعد مرنے کے مرے چاہنے والے بھی شفیق  ڈال آئینگے چمکتے لب و رخسار پہ خاک شفیق عطاری

پنجابی نظمیں

  جند نوں کھاون روگ تماشے اتھرو ھاواں سوگ تماشے بخت مداری گر جے ہووے ویندے نیں فر لوک تماشے عشق دے وچ میں آ کے ویکھے ہر نُکر ......ہر چوک..... تماشے تن لاشے تے سوہا جوڑا کی دسیاں سنجوگ تماشے اُڑ جانا اے خاک دے وانگو کرنے نیں کُجھ جوگ تماشے ہُن تے یار وی کہندے سانوں بس کر یاراں ڈھونگ تماشے

اس کی آنکھوں نے محبت کا ستارہ دیکھا ہو گا۔

  اس کی آنکھوں میں محبت کا ستارہ ہوگا ایک دن آئے گا ، وہ شخص ہمارا ہوگا. زندگی اب کے میرا نام نا شامل کرنا گر یہ طے ہے کے یہی کھیل دوبارہ ہوگا جس کے ہونے سے میری سانس چلا کرتی تھی کس طرح اس کے بغیر اپنا گزارہ ہوگا یہ اچانک جو اُجالا سا ہوا جاتا ہے دل نے چپکے سے تیرا نام پکارا ہوگا عشق کرنا ہے تو دن رات اسے سوچنا ہے اور کچھ ذہن میں آیا تو خسارا ہوگا یہ جو پانی میں چلا آیا سنہری سا غرور اس نے دریا میں کہیں پاؤں اتارا ہوگا کون روتا ہے یہاں رات کے سناٹوں میں میرے جیسا ہی کوئی ہجر کا مارا ہوگا جو میری روح میں بادل سے گرجتے ہیں وصی اس نے سینے میں کوئی درد اتارا ہوگا کام مشکل ہے مگر جیت ہی لونگا اس کو میرے مولا کا وصی جونہی اشارہ ہوگا ( وصی شاہ ) ࿇⃝🌹🌹⃝࿇⃝🌹🌹⃝࿇

انکھ اٹھی محبت نے انگڑائی لی دل کا سودا ہوا چاندنی رات میں

 آنکھ اُٹھی محبت نے انگڑائی لی دل کا سودا ہوا چاندنی رات میں اُن کی نظروں نے کچھ ایسا جادو کیا لُٹ گۓ ہم تو پہلی ملاقات میں ساتھ اپنا وفا میں نہ چھوٹے کبھی پیار کی ڈور بندھ کر نہ ٹوٹے کبھی چھوٹ جاۓ زمانہ کوئی غم نہیں ہاتھ تیرا رہے بس میرے ہاتھ میں رُت ہے برسات کی دیکھو ضد مت کرو رات اندھیری ہے بادل ہیں چھاۓ ہوۓ رُک بھی جاؤ صنم تم کو میری قسم اب کہاں جاؤ گۓ ایسی برسات میں ہے تیری یاد اس دل میں لپٹی ہوئی ہر گھڑی ہے تصور تیرے حسن کا تیری الفت کا پہرہ لگا ہے صنم کون آۓ گا میرے خیالات میں

اس چاند سے چہرے نے اک ہنر چھپا رکھا ہے۔

  اُس چاند سے چہرے نے اک ہُنر چھپا رکھا ہے میرے علاوہ۔ خدا جانے کتنوں کو رُولا رکھا ہے یوں تو تھا ۔ میں بھی اس کی محبت۔ پر دنیا کو کسی اور کے بارے میں بتا رکھا ہے۔ چلاکی ، دھوکہ مکر و فریب۔ ہےاسکو سب پر عبور مگر چہرے پے۔ عکسِ معصوم چڑھا رکھا ہے۔ اور کیا شرم، کیا حیا ،کیا جسم ، کیا پردہ,   وقتی مطلب کے لیے سب کچھ گنوا رکھا ہے۔  عین ممکن ہے کہ ہو کوئی ممجعزہ وہ بدل جائے۔  میں نے سنا ہے، خدا نے زلیخا کو جواں رکھا ہے۔ شاعر_علی_اسد_شیرازی

زندگی سے ملاقات ایک کھٹن سفر ہے۔

غزل  زندگی سے ملاقات ایک کھٹن سفر ہے  عمر بیت جاتی ہے منزل کے انتظار میں  بے ساختہ لمحوں میں اک تلاش کا عمل ہے  روح گم ہو جاتی ہے انساں کے لباس میں  فریب آرزو کا سہل اک حسیں منظر ہے  مقیم بن جاتی ہے آنکھوں سوال میں خزاں کی شام میں اک۔عجب مزہ ہے  شبیہہ طاری رہتی ہے آنکھوں کے خمار میں  محبت کی کہانی اک اشتہار بازی ہے  سو سوال بن جاتی ہے عشق کے زوال میں  محسن طارق

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا

  محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب  جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا ہنسی آتی ہے اپنی بربادیوں پر نہ یوں پیار سے دیکھیۓ بندہ پرور  مِرے دل کے زخموں کو نیند آ گئی ہے انہیں تم جگانے کی کوشش نہ کرنا محبت تو ہے ایک کاغذ کی ناؤ،  اُدھر بہتی ہے جس طرف ہو بہاؤ نظر کے بھنور میں نہ تم ڈوب جاؤ،  نگاہیں ملانے کی کوشش نہ کرنا ٹھہر جاؤ آنکھوں میں تھوڑا سا دم ہے،  تمہیں دیکھ لیں ورنہ حسرت رہے گی بناتے رہے ہو ہمیں زندگی بھر،  مگر اب بنانے کی کوشش نہ کرنا ستمگر سے جور و ستم کی شکایت،  نہ ہم کر سکے ہیں نہ ہم کر سکیں گے مرے آنسوؤ! تم مِرا ساتھ دینا،  انہیں تم بتانے کی کوشش نہ کرنا شمع بن کے محفل میں ہم جل رہے ہیں،  مگر دل کی حالت ہے پروانوں جیسی خدا کی قسم جان دے دیں گے تم پر،  ہمیں آزمانے کی کوشش نہ کرنا مسرور انور

ایک منٹ کیلئے اصلاح کی بات

 اگر آپ کسی کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے الفاظوں ک  خوبصورت بنانا سیکھیں الفاظ ایک انسان کو توڑنے اور جوڑنے کا ہنر رکھتے ہیں آپﷺ نے کبھی کسی کو زبان سے تکلیف نہیں دی،تو ہم کیوں دیتے ہیں؟ ہر بات کہہ دینے کی نہیں ہوتی ہمارے مسائل اتنے نہیں ہوتے جتنی ہماری زبان کی تلخی بنا دیتی ہے اگر صرف زبان کو دکھ دینے والے تبصرے اور طنزو تعنے دینے سے روک لیا جائے تو بہت سے لوگوں کی تکلیفیں کم ہوجائیں گی آپکو نہیں پتا ہوتا کے کسی کی زندگی میں کیا چل رہا ہے وہ کس مشکل سے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ اسکے پاس اللہ کے سوا کوئی شخص بھی نہیں جسے وہ اپنے دل کا حال سنائے ایسے میں کسی کے دل کو ایذا دینے یا طنزو ملامت کرنے کے بجائے اسے بس سن لیا جائے اپنی بات درست طریقے سے سمجھا دی جائے تو بہت سے لوگوں کو سکون مل جائے گا...

جھوٹ چہرے پہ سجانا نہیں آیا مجھ کو زندگی تجھ کو بِتانا نہیں آیا مجھ کو

  جھوٹ چہرے پہ سجانا نہیں آیا مجھ کو زندگی تجھ کو بِتانا نہیں آیا مجھ کو رہ کے دنیا میں بھی سیکھی نہیں دنیا داری کر کے احسان جتانا نہیں آیا مجھ کو دنیا ٹھیٹر ہے تو ناکام اداکار ہوں میں کوئی کردار نبھانا نہیں آیا مجھ کو ایک ہی شخص کی خواہش میں رہا سرگرداں در بدر خاک اڑانا نہیں آیا مجھ کو لطف تو جب تھا وہ خود کرتا محبت محسوس کہہ کر احساس دلانا نہیں آیا مجھ کو کچھ تو یہ دل بھی ہے تنہائی پسند اور اس پر عمر بھر دوست بنانا نہیں آیا مجھ کو تُو سمجھتا ہے کہ میں ترکِ تعلق پہ ہوں خوش روٹھنے والے منانا نہیں آیا مجھ کو