چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں آج بازار میں پا بہ جولاں چلو دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو حاکم شہر بھی مجمع عام بھی تیر الزام بھی سنگ دشنام بھی صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے شہر جاناں میں اب با صفا کون ہے دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو فیض احمد فیض ❤️
محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا ہنسی آتی ہے اپنی بربادیوں پر نہ یوں پیار سے دیکھیۓ بندہ پرور مِرے دل کے زخموں کو نیند آ گئی ہے انہیں تم جگانے کی کوشش نہ کرنا محبت تو ہے ایک کاغذ کی ناؤ، اُدھر بہتی ہے جس طرف ہو بہاؤ نظر کے بھنور میں نہ تم ڈوب جاؤ، نگاہیں ملانے کی کوشش نہ کرنا ٹھہر جاؤ آنکھوں میں تھوڑا سا دم ہے، تمہیں دیکھ لیں ورنہ حسرت رہے گی بناتے رہے ہو ہمیں زندگی بھر، مگر اب بنانے کی کوشش نہ کرنا ستمگر سے جور و ستم کی شکایت، نہ ہم کر سکے ہیں نہ ہم کر سکیں گے مرے آنسوؤ! تم مِرا ساتھ دینا، انہیں تم بتانے کی کوشش نہ کرنا شمع بن کے محفل میں ہم جل رہے ہیں، مگر دل کی حالت ہے پروانوں جیسی خدا کی قسم جان دے دیں گے تم پر، ہمیں آزمانے کی کوشش نہ کرنا مسرور انور