میری پسندیدہ غزل مجھے بتاؤ ، مکاں سے کہ لا مکاں سے مِلا میں خود کو مِل نہیں پایا تمہیں کہاں سے مِلا نشانِ سجدہ تو سجدوں سے ہوگیا روشن خمارِ سجدہ مگر تیرے آستاں سے مِلا پھر اس کے بعد مجھے نیند ہی نہیں آئ میں جاگتے میں کہیں خوابِ رائیگاں سے مِلا یہ جو اب اپنی کہانی میں لکھ رہے ہیں تجھے ترا سُراغ انہیں میری داستاں سے ملا وہ گفتگو کا قرینہ سکھا رہا تھا مجھے زباں کا حسن مجھے ایک بے زباں سے مِلا یہ درمیاں جو خلا ہے اسی لئے شاید زمیں کا کوئ کنارا نہ آسماں سے مِلا ہمیشہ ان کے نشانے ہی پہ رہا میں سلیم غرورِفتح مجھے بزمِ دوستاں سے مِلا سلیم کوثر
محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا ہنسی آتی ہے اپنی بربادیوں پر نہ یوں پیار سے دیکھیۓ بندہ پرور مِرے دل کے زخموں کو نیند آ گئی ہے انہیں تم جگانے کی کوشش نہ کرنا محبت تو ہے ایک کاغذ کی ناؤ، اُدھر بہتی ہے جس طرف ہو بہاؤ نظر کے بھنور میں نہ تم ڈوب جاؤ، نگاہیں ملانے کی کوشش نہ کرنا ٹھہر جاؤ آنکھوں میں تھوڑا سا دم ہے، تمہیں دیکھ لیں ورنہ حسرت رہے گی بناتے رہے ہو ہمیں زندگی بھر، مگر اب بنانے کی کوشش نہ کرنا ستمگر سے جور و ستم کی شکایت، نہ ہم کر سکے ہیں نہ ہم کر سکیں گے مرے آنسوؤ! تم مِرا ساتھ دینا، انہیں تم بتانے کی کوشش نہ کرنا شمع بن کے محفل میں ہم جل رہے ہیں، مگر دل کی حالت ہے پروانوں جیسی خدا کی قسم جان دے دیں گے تم پر، ہمیں آزمانے کی کوشش نہ کرنا مسرور انور