میری پسندیدہ غزل
مجھے بتاؤ ، مکاں سے کہ لا مکاں سے مِلا
میں خود کو مِل نہیں پایا تمہیں کہاں سے مِلا
نشانِ سجدہ تو سجدوں سے ہوگیا روشن
خمارِ سجدہ مگر تیرے آستاں سے مِلا
پھر اس کے بعد مجھے نیند ہی نہیں آئ
میں جاگتے میں کہیں خوابِ رائیگاں سے مِلا
یہ جو اب اپنی کہانی میں لکھ رہے ہیں تجھے
ترا سُراغ انہیں میری داستاں سے ملا
وہ گفتگو کا قرینہ سکھا رہا تھا مجھے
زباں کا حسن مجھے ایک بے زباں سے مِلا
یہ درمیاں جو خلا ہے اسی لئے شاید
زمیں کا کوئ کنارا نہ آسماں سے مِلا
ہمیشہ ان کے نشانے ہی پہ رہا میں سلیم
غرورِفتح مجھے بزمِ دوستاں سے مِلا
سلیم کوثر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں