بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار بے قراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ اس کی آنکھوں نے خدا جانے کیا کیا جادو کہ طبیعت مری مائل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ عکس رخسار نے کس کے ہے تجھے چمکایا تاب تجھ میں مہ کامل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ اب کی جو راہ محبت میں اٹھائی تکلیف سخت ہوتی ہمیں منزل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ نگہ یار کو اب کیوں ہے تغافل اے دل وہ ترے حال سے غافل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ چشم قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ کیا سبب تو جو بگڑتا ہے ظفرؔ سے ہر بار خو تری حور شمائل کبھی ایسی تو نہ تھی۔
محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا ہنسی آتی ہے اپنی بربادیوں پر نہ یوں پیار سے دیکھیۓ بندہ پرور مِرے دل کے زخموں کو نیند آ گئی ہے انہیں تم جگانے کی کوشش نہ کرنا محبت تو ہے ایک کاغذ کی ناؤ، اُدھر بہتی ہے جس طرف ہو بہاؤ نظر کے بھنور میں نہ تم ڈوب جاؤ، نگاہیں ملانے کی کوشش نہ کرنا ٹھہر جاؤ آنکھوں میں تھوڑا سا دم ہے، تمہیں دیکھ لیں ورنہ حسرت رہے گی بناتے رہے ہو ہمیں زندگی بھر، مگر اب بنانے کی کوشش نہ کرنا ستمگر سے جور و ستم کی شکایت، نہ ہم کر سکے ہیں نہ ہم کر سکیں گے مرے آنسوؤ! تم مِرا ساتھ دینا، انہیں تم بتانے کی کوشش نہ کرنا شمع بن کے محفل میں ہم جل رہے ہیں، مگر دل کی حالت ہے پروانوں جیسی خدا کی قسم جان دے دیں گے تم پر، ہمیں آزمانے کی کوشش نہ کرنا مسرور انور