آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے تجھ پہ برسا ہے اسی بام سے مہتاب کا نور جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں نا توانوں کے نوالوں پہ ...
محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا ہنسی آتی ہے اپنی بربادیوں پر نہ یوں پیار سے دیکھیۓ بندہ پرور مِرے دل کے زخموں کو نیند آ گئی ہے انہیں تم جگانے کی کوشش نہ کرنا محبت تو ہے ایک کاغذ کی ناؤ، اُدھر بہتی ہے جس طرف ہو بہاؤ نظر کے بھنور میں نہ تم ڈوب جاؤ، نگاہیں ملانے کی کوشش نہ کرنا ٹھہر جاؤ آنکھوں میں تھوڑا سا دم ہے، تمہیں دیکھ لیں ورنہ حسرت رہے گی بناتے رہے ہو ہمیں زندگی بھر، مگر اب بنانے کی کوشش نہ کرنا ستمگر سے جور و ستم کی شکایت، نہ ہم کر سکے ہیں نہ ہم کر سکیں گے مرے آنسوؤ! تم مِرا ساتھ دینا، انہیں تم بتانے کی کوشش نہ کرنا شمع بن کے محفل میں ہم جل رہے ہیں، مگر دل کی حالت ہے پروانوں جیسی خدا کی قسم جان دے دیں گے تم پر، ہمیں آزمانے کی کوشش نہ کرنا مسرور انور