غزل دل فروشوں کے لیے کوچہ و بازار بنے اور جانبازوں کی خاطر رسن و دار بنے بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی تیری دیوار سے اونچی مری دیوار بنے چھین کر غیر سے اپنوں نے مجھے قتل کیا آپ ہی ڈھال بنے ،آپ ہی تلوار بنے ہو گئے لوگ اپاہج یہی کہتے کہتے ابھی چلتے ہیں ذرا راہ تو ہموار بنے مجھ کو ممنون کرم کر کے وہ فرماتے ہیں آدمی سوچ سمجھ کر ذرا خود دار بنے خود شناسی کے نہ ہونے سے یہی ہوتا ہے جن کو فن کار نہ بننا تھا وہ فن کار بنے تجھ سے کتنا ہے ہمیں پیار کچھ اندازہ کر ہم ترے چاہنے والوں کے روادار بنے شان و شوکت کے لیے تو ہے پریشان حفیظ اور میری یہ تمنا ترا کردار بنے حفیظ میرٹھی
محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا ہنسی آتی ہے اپنی بربادیوں پر نہ یوں پیار سے دیکھیۓ بندہ پرور مِرے دل کے زخموں کو نیند آ گئی ہے انہیں تم جگانے کی کوشش نہ کرنا محبت تو ہے ایک کاغذ کی ناؤ، اُدھر بہتی ہے جس طرف ہو بہاؤ نظر کے بھنور میں نہ تم ڈوب جاؤ، نگاہیں ملانے کی کوشش نہ کرنا ٹھہر جاؤ آنکھوں میں تھوڑا سا دم ہے، تمہیں دیکھ لیں ورنہ حسرت رہے گی بناتے رہے ہو ہمیں زندگی بھر، مگر اب بنانے کی کوشش نہ کرنا ستمگر سے جور و ستم کی شکایت، نہ ہم کر سکے ہیں نہ ہم کر سکیں گے مرے آنسوؤ! تم مِرا ساتھ دینا، انہیں تم بتانے کی کوشش نہ کرنا شمع بن کے محفل میں ہم جل رہے ہیں، مگر دل کی حالت ہے پروانوں جیسی خدا کی قسم جان دے دیں گے تم پر، ہمیں آزمانے کی کوشش نہ کرنا مسرور انور