تازہ غزل
زندگی ڈال گئی وقت کی رفتار پہ خاک
جم گئی زیست کے خستہ در و دیوار پہ خاک
فیصلہ تُو نے سنایا ہے بڑی دیر کے ساتھ
منصفِ وقت ترے جیسے طرفدار پہ خاک
فاختاؤں کو جہاں نوچ کے کھا جائے ہوس
پھر تو بنتا ہے کہ ڈال آؤ وہاں پیار پہ خاک
جب محبت ہی نہیں مجھ کو ترے ساتھ رہی
زندگی بھاڑ میں جا اب ترے اقرار پہ خاک
کس طرح اب تُو مرے پاؤں پکڑتا ہے یہاں
کیسے ڈالوں میں ترے جیسے شرمسار پہ خاک
اُن فقیروں کو بھلا کیسے خریدے گا کوئی
ڈال آئے ہوں جو خود خلعت و دستار پہ خاک
تیری دنیا سے خدا مجھ کو کوئی کام نہیں
میری جانب سے ترے رونقِ بازار پہ خاک
جھوٹ کی جیت ہو سچائی مرے روز جہاں
ایسے ہر عہد کے ہر صاحبِ کردار پہ خاک
بعد مرنے کے مرے چاہنے والے بھی شفیق
ڈال آئینگے چمکتے لب و رخسار پہ خاک
شفیق عطاری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں