نظم "پنجرہ"
فلک سے آتش برس رہی تھی
ہوا زمیں پر خموش ٹھہری
درندگی سے پرندگی تک
سبھی زبانیں لٹک رہی تھیں
سیاہ وردی میں لپٹا پنچھی
مکانِ خستہ کے ٹھنڈے سائے میں آن پہنچا
تو اسکی نظریں قفس میں جکڑے
ہرے پرندے نے قید کر لیں
پھر اسودی چونچ سے اچانک سوال پھسلا
بتاؤ مٹھو
کہ تم سے کیسی خطا ہوئی ہے ؟
کہ زندگی سے پرندگی تک
تمہارا سب سلب ہو گیا ہے
ہرے بدن کے وہ سرخ ہونٹوں نے بے بسی میں یہی کہا بس ۔۔۔۔
یہاں کوئی بھی جو بولتا ہے
وہ قید میں ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں