غزل چارہ گر، ہار گیا ہو جیسے اب تو مرنا ہی دَوا ہو جیسے مُجھ سے بچھڑا تھا وہ پہلے بھی مگر اب کے یہ زخم نیا ہو جیسے میرے ماتھے پہ ترے پیار کا ہاتھ رُوح پر دستِ صبا ہو جیسے یوں بہت ہنس کے ملا تھا لیکن دل ہی دل میں وہ خفا ہو جیسے سر چھپائیں تو بدن کُھلتا ہے زیست مفلس کی رِدا ہو جیسے پروین شاکر - خوشبو -
محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا ہنسی آتی ہے اپنی بربادیوں پر نہ یوں پیار سے دیکھیۓ بندہ پرور مِرے دل کے زخموں کو نیند آ گئی ہے انہیں تم جگانے کی کوشش نہ کرنا محبت تو ہے ایک کاغذ کی ناؤ، اُدھر بہتی ہے جس طرف ہو بہاؤ نظر کے بھنور میں نہ تم ڈوب جاؤ، نگاہیں ملانے کی کوشش نہ کرنا ٹھہر جاؤ آنکھوں میں تھوڑا سا دم ہے، تمہیں دیکھ لیں ورنہ حسرت رہے گی بناتے رہے ہو ہمیں زندگی بھر، مگر اب بنانے کی کوشش نہ کرنا ستمگر سے جور و ستم کی شکایت، نہ ہم کر سکے ہیں نہ ہم کر سکیں گے مرے آنسوؤ! تم مِرا ساتھ دینا، انہیں تم بتانے کی کوشش نہ کرنا شمع بن کے محفل میں ہم جل رہے ہیں، مگر دل کی حالت ہے پروانوں جیسی خدا کی قسم جان دے دیں گے تم پر، ہمیں آزمانے کی کوشش نہ کرنا مسرور انور