نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

مئی, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

چارہ گر ہار گیا ہو جیسے اب تو مرنا ہی دوا ہو جیسے

  غزل  چارہ گر، ہار گیا ہو جیسے اب تو مرنا ہی دَوا ہو جیسے مُجھ سے بچھڑا تھا وہ پہلے بھی مگر اب کے یہ زخم نیا ہو جیسے میرے ماتھے پہ ترے پیار کا ہاتھ رُوح پر دستِ صبا ہو جیسے یوں بہت ہنس کے ملا تھا لیکن دل ہی دل میں وہ خفا ہو جیسے سر چھپائیں تو بدن کُھلتا ہے زیست مفلس کی رِدا ہو جیسے پروین شاکر - خوشبو -

محبت پھول ہوتی ہے کہو تو پھول بن جاؤں کیا

محبت پھول ہوتی ہے   "محبت پھول ہوتی ہے، کہو تو  پھول بن جاؤں ! تمہاری زندگی کا اِک حسیں  اصول بن جاؤں___ سُنا ہے ریت پہ چل کے تم اکثر  مہک جاتے ہو ! کہو تو اب کے بار میں زمیں کی  دھول بن جاؤں___ بہت نایاب ہوتے ہیں جنہیں تم  اپنا کہتے ہو ! اجازت دو کہ میں بھی اس قدر  انمول بن جاوں " … 🎧🙈🥰    *"محبت پھول ہوتی ہے، کہو تو  پھول بن جاؤں ! تمہاری زندگی کا اِک حسیں  اصول بن جاؤں___ سُنا ہے ریت پہ چل کے تم اکثر  مہک جاتے ہو ! کہو تو اب کے بار میں زمیں کی  دھول بن جاؤں___ بہت نایاب ہوتے ہیں جنہیں تم  اپنا کہتے ہو ! اجازت دو کہ میں بھی اس قدر  انمول بن جاوں " … 🎧🙈🥰       ♡ ㅤ ❍ㅤ ⎙ ⌲ 
  غزل   ترے فراق میں گھٹنوں چلی ہے تنہائی خیال و خواب میں پھولی پھلی ہے تنہائی ترے خیال ترے ہجر کے وسیلے سے تصورات میں ہم سے ملی ہے تنہائی جمال یار میں کھویا ہوا ہے سناٹا خیال یار میں ڈوبی ہوئی ہے تنہائی کسی کے شوخ بدن کی ضرورتوں کی طرح تمام رات سلگتی رہی ہے تنہائی تمہاری زلف معنبر کا آسرا لے کر ہماری فکر و نظر میں پلی ہے تنہائی نامعلوم

مجھے بتاؤ کہ مکاں سے کہ لا مکاں سے ملا میں خود کو نہیں مل پایا تمہیں کہاں سے ملا؟

  میری پسندیدہ غزل مجھے بتاؤ ، مکاں سے کہ لا مکاں سے مِلا میں خود کو مِل نہیں پایا تمہیں کہاں سے مِلا نشانِ سجدہ تو سجدوں سے ہوگیا روشن خمارِ سجدہ مگر تیرے آستاں سے مِلا پھر اس کے بعد مجھے نیند ہی نہیں آئ میں جاگتے میں کہیں خوابِ رائیگاں سے مِلا یہ جو اب اپنی کہانی میں لکھ رہے ہیں تجھے ترا سُراغ انہیں میری داستاں سے ملا وہ گفتگو کا قرینہ سکھا رہا تھا مجھے زباں کا حسن مجھے ایک بے زباں سے مِلا یہ درمیاں جو خلا ہے اسی لئے شاید زمیں کا کوئ کنارا نہ آسماں سے مِلا ہمیشہ ان کے نشانے ہی پہ رہا میں سلیم غرورِفتح مجھے بزمِ دوستاں سے مِلا سلیم کوثر

فل فروشوں کیلئے کوچہ بازار بنے اور جانبازوں خاطر رسن و دار بنے غزل

  غزل  دل فروشوں کے لیے کوچہ و بازار بنے اور جانبازوں کی خاطر رسن و دار بنے بس یہی دوڑ ہے اس دور کے انسانوں کی تیری دیوار سے اونچی مری دیوار بنے چھین کر غیر سے اپنوں نے مجھے قتل کیا آپ ہی ڈھال بنے ،آپ ہی تلوار بنے ہو گئے لوگ اپاہج یہی کہتے کہتے ابھی چلتے ہیں ذرا راہ تو ہموار بنے مجھ کو ممنون کرم کر کے وہ فرماتے ہیں آدمی سوچ سمجھ کر ذرا خود دار بنے خود شناسی کے نہ ہونے سے یہی ہوتا ہے جن کو فن کار نہ بننا تھا وہ فن کار بنے تجھ سے کتنا ہے ہمیں پیار کچھ اندازہ کر ہم ترے چاہنے والوں کے روادار بنے شان و شوکت کے لیے تو ہے پریشان حفیظ اور میری یہ تمنا ترا کردار بنے حفیظ میرٹھی

مجھے پیار کا میٹھا احساس دلانے لگے ہو تم اب مجھ سے مجھ ہی کو چرانے لگے ہو تم

  غزل مُجھے پیار کا میٹھا احساس دِلانے لگے ہو تم اب تو مجھ سے مُجھ ہی کو چرانے لگے ہو تم تیری چاہتوں کا چھایا ہے سرور ہم پر ہر طرف ہر پل ہر جگہ نظر آنے لگے ہو تم  ہماری ویران تھی زندگی تیرے آنے سے پہلے خوشیوں کے خواب مجھے دِکھانے لگے ہو تم  اب ہر پل مُجھے ہوتا ہے تیرے ہونے کا احساس اس قدر میری سانسوں میں سمانے لگے ہو تم  کہاں تُجھے اس بات کا احساس ہے میرے ہمدم میرے ہر شعر میں ہر غزل میں آنے لگے ہو تم۔ نامعلوم

عشق فقیراں نو مست بنائے عشق ہی یار پرست بنائے۔

  عشق فقیراں نوں مست بناوے عشق ہی۔۔۔۔۔۔۔ یار پرست بناوے عشق جیندیاں جی مار مکاوے عشق نوں جہڑا۔۔۔۔ گل نال لاوے عشق دے جوگی کَن پڑواندے عشقا عشقا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نعرہ لاندے عشق دا چولا ۔۔۔۔گل وچ پاندے یار دے ناں دیاں۔ کوکاں لاندے بنڑ جا کمی ۔۔۔۔۔۔۔۔یار دے در دا عشق دی جاگیر در یار کہلاوے عشق پاکاں دا۔۔۔۔۔ عاشق ازلوں عشق معراج ۔عرشاں دی کراوے عشق مرشد وچ۔۔مستم بنڑ جا عشق ہی بیڑا ۔۔۔۔۔۔۔پار لنگاوے

ہم تو مقتل میں بھی آتے ہیں بصد شوق و نیاز جیسے آتا ہے محبت سے پکارا ہوا شخص

غزل  ہم تو مقتل میں بھی آتے ہیں بصد شوق و نیاز جیسے آتا ہے محبت سے پکارا ہوا شخص کب کسی قرب کی جنت کا تمنائی ہے یہ ترے ہجر کے دوزخ سے گزارا ہوا شخص اب اندھیرے ہیں کہ لیتے ہیں بلائیں اُس کی روشنی بانٹ گیا دیپ پہ وارا ہوا شخص موت کے جبر میں ڈھونڈی ہیں پناہیں اس نے زندگی یہ ہے ترے لطف کا مارا ہوا شخص نامعلوم

تو! نظم

  میرے دشت۔تمنا میں!  جب تیری یاد کے دف بجتے ہیں تو! بے خودی کے کئی سازوں پر حسرتوں کے مور  بے یقینی کے  جگھمٹوں سے نکل کر عالم۔ سرشاری کی کیفیت میں  ناچنے لگتے ہیں  اور کئی ان کہے لفظ! خوابوں کے زندان سے نکل کر دوڑتے ہوئے تعبیروں کی منڈیر پہ جا بیٹھتے ہیں🥀

اکھیاں دی رکھوالی رکھ عینک بھانویں کالی رکھ

  پنجابی نظم  اکھیاں دی رکھوالی رکھ عینک بھانویں کالی رکھ اکھیاں دی رکھوالی رکھ  عینک بھانویں کالی رکھ  اکو یار نال یاری لا  دُشمن بھانویں چالی رکھ  عیباں اُتے پردہ پا  تھالی اُتے تھالی رکھ  چھڈ مثالاں لوکاں دیاں  اپنا آپ مثالی رکھ  گُھپ ہنیرے دے وچ سجنا  پیار دا دیوا بالی رکھ  پیار دے بُوٹے لاون لئی  اک ادھا تُوں مالی رکھ  بھانویں کوئی خواب سجا  اکھاں نُوں نہ خالی رکھ  کسے دا بُرا کدے نہ کر  سوچ اپنی تُوں عالی رکھ  سوچ سمجھ کے بولیا کر  منہ اگے تُوں جالی رکھ  توفیق تُوں اپنے دل اندر  رب دی یاد نُوں پالی رکھ... 😇🔥

بڑا عشق عشق توں کرنا ایں پنجابی نظم

پنجابی نظم بڑا عشق عشق تو کرنا آئیں بڑا عشق عشق تو کرنا آئیں کڑی عشق دا گنجل کھول طے سائی تینوں مٹی وچ نا رول دیوے دو پیار دے بول بول تے سائی سکھ گھاٹ تے درد ہزار ملن کڑی عشق نوں تکڑی تول تے سائی تیری ہسدی اکھ وی پج جاوے کڑی سانوں اندروں پھول تے سائی تیرے پیار وچ جند رول دیواں تو سمجھ مینو انمول تے سائی

آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا ہے

  آ کہ وابستہ ہیں اس حسن کی یادیں تجھ سے جس نے اس دل کو پری خانہ بنا رکھا تھا جس کی الفت میں بھلا رکھی تھی دنیا ہم نے دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا آشنا ہیں ترے قدموں سے وہ راہیں جن پر اس کی مدہوش جوانی نے عنایت کی ہے کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کے جس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ ہونٹ زندگی جن کے تصور میں لٹا دی ہم نے تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے تجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوب ہوائیں جن میں اس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے تجھ پہ برسا ہے اسی بام سے مہتاب کا نور جس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے اتنے احسان کہ گنواؤں تو گنوا نہ سکوں ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے جز ترے اور کو سمجھاؤں تو سمجھا نہ سکوں عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بیکس جن کے اشک آنکھوں میں بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں نا توانوں کے نوالوں پہ ...

زندگی ڈال گئی وقت کی رفتار پہ خاک تازہ غزل

  تازہ غزل  زندگی ڈال گئی وقت کی رفتار پہ خاک  جم گئی زیست کے خستہ در و دیوار پہ خاک  فیصلہ تُو نے سنایا ہے بڑی دیر کے ساتھ  منصفِ وقت ترے جیسے طرفدار پہ خاک  فاختاؤں کو جہاں نوچ کے کھا جائے ہوس   پھر تو بنتا ہے کہ ڈال آؤ وہاں پیار پہ خاک  جب محبت ہی نہیں مجھ کو ترے ساتھ رہی زندگی بھاڑ میں جا اب ترے اقرار پہ خاک   کس طرح اب تُو مرے پاؤں پکڑتا ہے یہاں  کیسے ڈالوں میں ترے جیسے شرمسار پہ خاک  اُن فقیروں کو بھلا کیسے خریدے گا کوئی ڈال آئے ہوں جو خود خلعت و دستار پہ خاک  تیری دنیا سے خدا مجھ کو کوئی کام نہیں  میری جانب سے ترے رونقِ بازار پہ خاک  جھوٹ کی جیت ہو سچائی مرے روز جہاں  ایسے ہر عہد کے ہر صاحبِ کردار پہ خاک  بعد مرنے کے مرے چاہنے والے بھی شفیق  ڈال آئینگے چمکتے لب و رخسار پہ خاک شفیق عطاری

پنجابی نظمیں

  جند نوں کھاون روگ تماشے اتھرو ھاواں سوگ تماشے بخت مداری گر جے ہووے ویندے نیں فر لوک تماشے عشق دے وچ میں آ کے ویکھے ہر نُکر ......ہر چوک..... تماشے تن لاشے تے سوہا جوڑا کی دسیاں سنجوگ تماشے اُڑ جانا اے خاک دے وانگو کرنے نیں کُجھ جوگ تماشے ہُن تے یار وی کہندے سانوں بس کر یاراں ڈھونگ تماشے

اس کی آنکھوں نے محبت کا ستارہ دیکھا ہو گا۔

  اس کی آنکھوں میں محبت کا ستارہ ہوگا ایک دن آئے گا ، وہ شخص ہمارا ہوگا. زندگی اب کے میرا نام نا شامل کرنا گر یہ طے ہے کے یہی کھیل دوبارہ ہوگا جس کے ہونے سے میری سانس چلا کرتی تھی کس طرح اس کے بغیر اپنا گزارہ ہوگا یہ اچانک جو اُجالا سا ہوا جاتا ہے دل نے چپکے سے تیرا نام پکارا ہوگا عشق کرنا ہے تو دن رات اسے سوچنا ہے اور کچھ ذہن میں آیا تو خسارا ہوگا یہ جو پانی میں چلا آیا سنہری سا غرور اس نے دریا میں کہیں پاؤں اتارا ہوگا کون روتا ہے یہاں رات کے سناٹوں میں میرے جیسا ہی کوئی ہجر کا مارا ہوگا جو میری روح میں بادل سے گرجتے ہیں وصی اس نے سینے میں کوئی درد اتارا ہوگا کام مشکل ہے مگر جیت ہی لونگا اس کو میرے مولا کا وصی جونہی اشارہ ہوگا ( وصی شاہ ) ࿇⃝🌹🌹⃝࿇⃝🌹🌹⃝࿇

نظم پرندہ

 نظم "پنجرہ" فلک سے آتش برس رہی تھی ہوا زمیں پر خموش ٹھہری درندگی سے پرندگی تک سبھی زبانیں لٹک رہی تھیں سیاہ وردی میں لپٹا پنچھی مکانِ خستہ کے ٹھنڈے سائے میں آن پہنچا تو اسکی نظریں قفس میں جکڑے ہرے پرندے نے قید کر لیں پھر اسودی چونچ سے اچانک سوال پھسلا بتاؤ مٹھو کہ تم سے کیسی خطا ہوئی ہے ؟ کہ زندگی سے پرندگی تک تمہارا سب سلب ہو گیا ہے ہرے بدن کے وہ سرخ ہونٹوں نے بے بسی میں یہی کہا بس ۔۔۔۔ یہاں کوئی بھی جو بولتا ہے وہ قید میں ہے

نی مائے اسی ٹر چلے پنجابی نظم

پنجابی نظم  نی مائے اسی ٹُر چلے تیرے دیس چوں کلم کلّے ساڈے ہتھاں اُتے پانی پا دے نالے لاہ لے اپنے چھلّے نی مائے اسی ٹُر چلے تیرے دیس چوں کلم کلّے اَج کون اساڈے دکھ ونڈے کیوں صحراواں دے رُکھ ونڈے کیڑھا موڈھے لاوے روندیاں نوں کیڑھا دل دیاں تلیاں ملّے نی مائے اسی ٹُر چلے تیرے دیس چوں کلم کلّے او رب اے کُل جہاناں دا پاتالاں تے اَسماناں دا ہک ماڑے جئے دل دی خاطر کیوں لَوے تختاں توں تلّے نی مائے اسی ٹُر چلے تیرے دیس چوں کلم کلّے اَج مارے آپ پریتاں نوں اَج ڈھاوے آپ مسیتاں نوں اَج ساڑے دل دے کعبے نوں اَگ لاوے آپ مصلّے نی مائے اسی ٹُر چلے تیرے دیس چوں کلم کلّے اسیں سُکّے دریاواں دے دل اسیں ڈوگھے زخماں دی ساول اسیں رُل مویاں دیاں قبراں جے جتھے کوئی نہ ڈیوا بلّے نی مائے اسی ٹُر چلے تیرے دیس چوں کلم کلّے

انکھ اٹھی محبت نے انگڑائی لی دل کا سودا ہوا چاندنی رات میں

 آنکھ اُٹھی محبت نے انگڑائی لی دل کا سودا ہوا چاندنی رات میں اُن کی نظروں نے کچھ ایسا جادو کیا لُٹ گۓ ہم تو پہلی ملاقات میں ساتھ اپنا وفا میں نہ چھوٹے کبھی پیار کی ڈور بندھ کر نہ ٹوٹے کبھی چھوٹ جاۓ زمانہ کوئی غم نہیں ہاتھ تیرا رہے بس میرے ہاتھ میں رُت ہے برسات کی دیکھو ضد مت کرو رات اندھیری ہے بادل ہیں چھاۓ ہوۓ رُک بھی جاؤ صنم تم کو میری قسم اب کہاں جاؤ گۓ ایسی برسات میں ہے تیری یاد اس دل میں لپٹی ہوئی ہر گھڑی ہے تصور تیرے حسن کا تیری الفت کا پہرہ لگا ہے صنم کون آۓ گا میرے خیالات میں

اس چاند سے چہرے نے اک ہنر چھپا رکھا ہے۔

  اُس چاند سے چہرے نے اک ہُنر چھپا رکھا ہے میرے علاوہ۔ خدا جانے کتنوں کو رُولا رکھا ہے یوں تو تھا ۔ میں بھی اس کی محبت۔ پر دنیا کو کسی اور کے بارے میں بتا رکھا ہے۔ چلاکی ، دھوکہ مکر و فریب۔ ہےاسکو سب پر عبور مگر چہرے پے۔ عکسِ معصوم چڑھا رکھا ہے۔ اور کیا شرم، کیا حیا ،کیا جسم ، کیا پردہ,   وقتی مطلب کے لیے سب کچھ گنوا رکھا ہے۔  عین ممکن ہے کہ ہو کوئی ممجعزہ وہ بدل جائے۔  میں نے سنا ہے، خدا نے زلیخا کو جواں رکھا ہے۔ شاعر_علی_اسد_شیرازی

گئے دنوں کا سراغ لے کے کدھر سے آیا کدھر گیا وہ۔نظم ناصر کاظمی

  ناصر کاظمی گئے دنوں کا سراغ لے کے کدھر سے آیا کدھر گیا وہ  عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ  بس ایک موتی سی چھب دکھا کر  بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر  ستارہِ شام بن کے آیا برنگ خوابِ سحر گیا وہ  خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم  وہ بوۓِ گل تھا کہ نغمہِ جاں میرے تو دِل میں اُتر گیا وہ  نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا  یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ  کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دور آسماں بھی  جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ  بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے  یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا مَیں ٹھہر گیا وہ  شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بُلا رہا ہوں  جو قافلہ میرا ہم سفر تھا مثال گردِ سفر گیا وہ  میرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستم گروں کی پَلک نہ بھیگی  جو نالہ اُٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ  وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اُڑانے والا  یہ آ...

کیوں عشق عشق تم کرتی ہو یہ عشق تمہیں تڑپا دے گا۔نظم

  نظم کیوں عشق عشق تم کرتی ہو یہ عشق تمہیں تڑپا دے گا تم سیدھی سادھی لڑکی ہو یہ تمکو روگ لگا دے گا پھر من میں جل تھل کر دے گا پھر جینا مشکل کر دے گا تم ہنستی کھیلتی رہتی ہو یہ تم کو پاگل کر دے گا جب غم کے موسم میں پگلی تم تنہا تنہا گھوموں گی جب رک کے کسی انجان سے خد اپنا پتہ تم پوچھو گی تھی تمسے محبت کتنی اسے یہ وقت تمھیں سمجھا دے گا ہے عشق محبت ڈھونگ سبھی یہ کہ کے تمھیں ٹھکرا دے گا جب آنسو روک نہ پاؤ گی اور ہاتھ دعا میں اٹھاؤ گی پھر بات سنو تم یوں کرنا آنسوؤں سے ہی تم وضو کر نا جب مانگ لو معافی گناہوں سے پھر دیکھنا رب کی رحمت تم وہ ماضی تک کو بھلا دے گا اور تم کو بھاگ لگا دے گا جو عشق عشق تم کرتی تھیں تمہیں رب سے ہی ملوا دے گا.... نامعلوم

اب جو بکھرے تو بکھرنے کی شکایت کیسی۔؟فیض احمد فیض

  غزل اب جو بکھرے تو بکھرنے کی شکایت کیسی خشک پتوں کی ہواؤں سے رفاقت کیسی۔۔۔؟ میں نے ہر دور میں بس اس سے محبت کی ھے جرم سنگین ھے اب اس میں رعایت کیسی۔۔۔؟ اک پتا بھی اگر شاخ سے جدا ہوتا ھے کیا کہوں دل پے گزرتی ھے قیامت کیسی۔۔۔؟ زندگی تجھ کو تو لمحوں کا سفر کہتے تھے، راہ میں آ گئی صدیوں کی مسافت کیسی۔۔۔؟ ہوا کے دوش پے رکھے ہوے چراغ تھے ہم  جو بجھ  گئے تو  ہواؤں سے شکایت  کیسی۔۔۔؟ فیض احمد فیض

زندگی سے ملاقات ایک کھٹن سفر ہے۔

غزل  زندگی سے ملاقات ایک کھٹن سفر ہے  عمر بیت جاتی ہے منزل کے انتظار میں  بے ساختہ لمحوں میں اک تلاش کا عمل ہے  روح گم ہو جاتی ہے انساں کے لباس میں  فریب آرزو کا سہل اک حسیں منظر ہے  مقیم بن جاتی ہے آنکھوں سوال میں خزاں کی شام میں اک۔عجب مزہ ہے  شبیہہ طاری رہتی ہے آنکھوں کے خمار میں  محبت کی کہانی اک اشتہار بازی ہے  سو سوال بن جاتی ہے عشق کے زوال میں  محسن طارق

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا

  محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب  جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا ہنسی آتی ہے اپنی بربادیوں پر نہ یوں پیار سے دیکھیۓ بندہ پرور  مِرے دل کے زخموں کو نیند آ گئی ہے انہیں تم جگانے کی کوشش نہ کرنا محبت تو ہے ایک کاغذ کی ناؤ،  اُدھر بہتی ہے جس طرف ہو بہاؤ نظر کے بھنور میں نہ تم ڈوب جاؤ،  نگاہیں ملانے کی کوشش نہ کرنا ٹھہر جاؤ آنکھوں میں تھوڑا سا دم ہے،  تمہیں دیکھ لیں ورنہ حسرت رہے گی بناتے رہے ہو ہمیں زندگی بھر،  مگر اب بنانے کی کوشش نہ کرنا ستمگر سے جور و ستم کی شکایت،  نہ ہم کر سکے ہیں نہ ہم کر سکیں گے مرے آنسوؤ! تم مِرا ساتھ دینا،  انہیں تم بتانے کی کوشش نہ کرنا شمع بن کے محفل میں ہم جل رہے ہیں،  مگر دل کی حالت ہے پروانوں جیسی خدا کی قسم جان دے دیں گے تم پر،  ہمیں آزمانے کی کوشش نہ کرنا مسرور انور

ایک منٹ کیلئے اصلاح کی بات

 اگر آپ کسی کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے الفاظوں ک  خوبصورت بنانا سیکھیں الفاظ ایک انسان کو توڑنے اور جوڑنے کا ہنر رکھتے ہیں آپﷺ نے کبھی کسی کو زبان سے تکلیف نہیں دی،تو ہم کیوں دیتے ہیں؟ ہر بات کہہ دینے کی نہیں ہوتی ہمارے مسائل اتنے نہیں ہوتے جتنی ہماری زبان کی تلخی بنا دیتی ہے اگر صرف زبان کو دکھ دینے والے تبصرے اور طنزو تعنے دینے سے روک لیا جائے تو بہت سے لوگوں کی تکلیفیں کم ہوجائیں گی آپکو نہیں پتا ہوتا کے کسی کی زندگی میں کیا چل رہا ہے وہ کس مشکل سے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ اسکے پاس اللہ کے سوا کوئی شخص بھی نہیں جسے وہ اپنے دل کا حال سنائے ایسے میں کسی کے دل کو ایذا دینے یا طنزو ملامت کرنے کے بجائے اسے بس سن لیا جائے اپنی بات درست طریقے سے سمجھا دی جائے تو بہت سے لوگوں کو سکون مل جائے گا...

جھوٹ چہرے پہ سجانا نہیں آیا مجھ کو زندگی تجھ کو بِتانا نہیں آیا مجھ کو

  جھوٹ چہرے پہ سجانا نہیں آیا مجھ کو زندگی تجھ کو بِتانا نہیں آیا مجھ کو رہ کے دنیا میں بھی سیکھی نہیں دنیا داری کر کے احسان جتانا نہیں آیا مجھ کو دنیا ٹھیٹر ہے تو ناکام اداکار ہوں میں کوئی کردار نبھانا نہیں آیا مجھ کو ایک ہی شخص کی خواہش میں رہا سرگرداں در بدر خاک اڑانا نہیں آیا مجھ کو لطف تو جب تھا وہ خود کرتا محبت محسوس کہہ کر احساس دلانا نہیں آیا مجھ کو کچھ تو یہ دل بھی ہے تنہائی پسند اور اس پر عمر بھر دوست بنانا نہیں آیا مجھ کو تُو سمجھتا ہے کہ میں ترکِ تعلق پہ ہوں خوش روٹھنے والے منانا نہیں آیا مجھ کو